وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کا وہ افسر جو ٹیکے کے نام سے مشہور ہے ،اور ہر روز شام 7 سے رات 10 بجے تک وزیراعلیٰ پنجاب کو مشوروں سے نوازتا ہے ۔۔۔۔ لاہور کی وہ بااثر خاتون جو محکمہ پولیس میں اپنی مرضی سے تبادلے کروانے کا شوق رکھتی ہے ۔۔۔۔۔ جاوید چوہدری کے دنگ کر ڈالنے والے انکشافات - Pakistan Point

Breaking

Post Top Ad

August 17, 2020

وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کا وہ افسر جو ٹیکے کے نام سے مشہور ہے ،اور ہر روز شام 7 سے رات 10 بجے تک وزیراعلیٰ پنجاب کو مشوروں سے نوازتا ہے ۔۔۔۔ لاہور کی وہ بااثر خاتون جو محکمہ پولیس میں اپنی مرضی سے تبادلے کروانے کا شوق رکھتی ہے ۔۔۔۔۔ جاوید چوہدری کے دنگ کر ڈالنے والے انکشافات

 

لاہور (ویب ڈیسک) سید تسنیم عباس نقوی منڈی بہائوالدین سے تعلق رکھتے ہیں‘ یہ عرف عام میں بوگے شاہ کہلاتے ہیں‘ بوگے شاہ نے 25 سال قبل ائیرپورٹس کی پارکنگ کے ٹھیکے لینا شروع کیے‘ اس زمانے میں پارکنگ کے سسٹم اچھے نہیں ہوتے تھے لہٰذا یہ لوگ ’’ڈنڈا مار‘‘ مشہور ہو گئے۔ نامور کالم نگار جاوید چوہدری اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔یہ پھینٹا لگا کر پارکنگ فیس وصول کرتے تھے‘ بوگے شاہ کا کام چل پڑا اور پاکستان کے تمام ائیرپورٹس کی پارکنگ کے ٹھیکے آہستہ آہستہ بوگے شاہ کی کمپنی تسنیم شاہ نقوی اینڈ کو نے لے لیے‘ ان کی اس کام میں مناپلی ہو گئی اور یہ کروڑوں میں کھیلنے لگے‘ یہ اس دوران برطانیہ کے دورے کرنے لگے اور انھوں نے انویسٹمنٹ کی بیس پر برطانیہ کی شہریت بھی حاصل کر لی‘ آپ اگر خوش حال ہیں تو آپ آج بھی یورپ‘ برطانیہ یا امریکا کے بینکوں میں دس بیس کروڑ روپے ٹرانسفر کر کے فیملی امیگریشن لے سکتے ہیں۔بوگے شاہ نے بھی یہ راستہ استعمال کیا اور یہ کام یاب ہو گئے‘ نقوی صاحب ائیرپورٹس پر کام کرتے تھے چناں چہ انھیں 2008ء میں معلوم ہو ا حکومت ائیرپورٹس پر فائیوا سٹار اور فور اسٹار ہوٹل بنانے کا ارادہ رکھتی ہے‘ یہ ایک اچھی بزنس اپارچیونٹی تھی لہٰذا نقوی فیملی نے فوری طور پر برطانیہ میں یونی کارن پریسٹیج لمیٹڈ کے نام سے کمپنی رجسٹر کرا دی‘ کمپنی کے پانچ ڈائریکٹرز ہیں اور یہ تمام بوگے شاہ کی فیملی سے تعلق رکھتے ہیں‘ کمپنی 2009ء میں رجسٹر ہوئی‘لاہور میں 2009ء میں ائیرپورٹ پر فائیو اسٹار ہوٹل کے پلاٹ کی نیلامی ہوئی۔نقوی فیملی یونی کارن پریسٹیج لمیٹڈ کے نام سے نیلامی میں شریک ہوئی‘ ہوٹل کا پلاٹ خریدا‘ قبضہ لیا اور ہوٹل کی تعمیر شروع کر دی‘ یہ خود کوفارن کمپنی اور فارن انویسٹر ڈکلیئر کرتے تھے جب کہ یونی کارن پریسٹیج کے تمام ڈائریکٹرز پاکستانی ہیں اور ان کے مستقل اور سابقہ پتے منڈی بہائوالدین کے ہیں‘یوکے میں کمپنی صرف رجسٹر ہوئی تھی‘ آج بھی یونی کارن کے سی ای او سید جمیل عباس نقوی ہیں‘ نقوی برادرز نے ہوٹل کی تعمیر کے دوران سوئٹزرلینڈ کی ہوٹل اینڈ ریزارٹس کی کمپنی سوئس انٹرنیشنل کی فرنچائز لے لی اور اپنے ہوٹل کو ’’ہوٹل رائل سوئس‘‘ کا نام دے دیا‘ یہ 302 کمروں کا ہوٹل ہے اوریہ لاہور ائیرپورٹ پر واقع ہے۔یہ سلسلہ اس حد تک ٹھیک تھا لیکن پھر نقوی فیملی نے ایکسائز ڈیپارٹمنٹ کو مشروب خاص کے لائسنس کی درخواست دے دی‘ صوبوں میں ایکسائز ڈیپارٹمنٹ ایک بدنام محکمہ ہوتا ہے‘ کیوں؟ کیوں کہ صوبے کے زیادہ تر ٹیکس اکٹھے کرناایکسائز ڈیپارٹمنٹ کی ذمے داری ہوتی ہے‘ یہ محکمہ پراپرٹی ٹیکس بھی جمع کرتا ہے‘ ہوٹل ٹیکس بھی اور گاڑیوں کی رجسٹریشن فیس بھی لہٰذا ایمان دار اور سمجھ دار حکومتیں ایکسائز ڈیپارٹمنٹ کا ڈی جی انتہائی سوچ سمجھ کر لگاتی ہیں۔ہمیشہ اس عہدے پر ایمان دار اور تگڑے افسر لگائے جاتے ہیں لیکن عثمان بزدار کیوں کہ وسیم اکرم پلس ہیں چناں چہ آج یہ باتیں عام ہیں کہ پنجاب کے زیادہ تر محکمے دیہاڑی داروں کے قبضے میں ہیں‘ وزیراعلیٰ کے ایک افسر پوری پنجاب بیوروکریسی میں ٹیکا کہلاتے ہیں‘ یہ روز شام سات بجے سے رات گیارہ بجے تک وزیراعلیٰ کے ساتھ ہوتے ہیں اور ان سے درجن درجن تعیناتیاں کرا کر واپس آتے ہیں‘ آپ پنجاب کے کسی افسر سے صوبے میں تعیناتی کا ریٹ پوچھ لیں وہ آپ کو انگلیوں پر گن کر بتا دے گا بس اس خریدوفروخت سے صرف ایک بندہ ناواقف ہے اور وہ ہے عمران خان!یہ بھی سننے میں آ رہا ہے کہ پولیس کی تعیناتیاں لاہور کی ایک خاتون کراتی ہیں۔یہ ایس ایچ او تک لگوا دیتی ہیں اور ڈی ایم جی کے اختیارات ٹیکا کے پاس ہیں‘ ایکسائز ڈیپارٹمنٹ بھی اس لوٹ مار کا شکار ہو گیا اور وزیراعلیٰ نے اکرم اشرف گوندل نام کے ایک پروموٹی افسر کو ڈی جی بنا دیا‘اکرم اشرف کو چوہدری برادران نے بھرتی کرایا تھا‘ میں آپ کو اس تعیناتی کا مقصد آگے چل کر بتائوں گا‘ بہرحال اکرم اشرف گوندل ڈی جی ایکسائز تعینات ہو گئے اور چند دن بعد یونی کارن پریسٹیج لمیٹڈ کی طرف سے مشروب خاص کے لائسنس کی درخواست آ گئی‘ لاہور کے چار ہوٹلوں کے پاس اس وقت یہ لائسنس موجود ہے لیکن یہ تمام لائسنس پرانے ہیں۔ 1997ء کے بعد ایکسائز ڈیپارٹمنٹ نے کسی ہوٹل کو فروخت کا لائسنس جاری نہیں کیا‘ اکرم اشرف گوندل کم زور افسر ہیں لیکن یہ لائسنس ان کے قد کاٹھ سے بھی بڑا کام تھا لہٰذا یہ فائل روک کر بیٹھ گئے‘ اس دوران انھیں وزیراعلیٰ کے آفس کی طرف سے ’’ہدایات‘‘ موصول ہونا شروع ہو گئیں لیکن یہ حکم ٹالتے رہے‘ وزیراعلیٰ کے اسٹاف نے انھیں چھ مرتبہ سی ایم آفس بلایا‘ دو دو گھنٹے بٹھائے رکھا اور پھر وزیراعلیٰ نے انھیں خود لائسنس جاری کرنے کا حکم دے دیا مگر یہ آئیں بائیں شائیں کرتے رہے‘ یہ وزیراعلیٰ کو سمری بھی پُٹ رنا چاہتے تھے لیکن وزیراعلیٰ نے انھیں سختی سے روک دیا۔اکرم اشرف کو حکم دیا گیا یہ اپنی اتھارٹی استعمال کر کے لائسنس جاری کر دیں‘ڈی جی دبائو میں آگیا اور اس نے یونی کارن پریسٹیج کو مئے فروشی کا لائسنس جاری کر دیا تاہم اس نے ایک چالاکی کی‘ اس نے سمری لکھ کر وزیراعلیٰ کے آفس بھجوا دی ’’میں نے یہ لائسنس جاری کر دیا ہے‘ صرف وزیراعلیٰ کو اطلاعاً مطلع کر رہا ہوں‘‘ وزیراعلیٰ آفس نے جواب میں لکھا ’’یہ آپ کی اتھارٹی ہے آپ نے یہ فائل ہمیں کیوں بھجوائی‘‘ اور فائل واپس بھجوا دی‘ لائسنس دو پارٹنرز کو جاری کیا گیا تھا‘ یونی کارن پریسٹیج اور گوربچن سنگھ‘ پنجاب میں کوئی شخص گوربچن سنگھ کو نہیں جانتا‘ یہ لائسنس صرف فور اور فائیو اسٹار ہوٹلز کو دیا جا سکتا ہے۔کسی فرد کو نہیں لہٰذا اس کیس میں یہ خلاف ورزی تھی‘ ایکسائز ڈیپارٹمنٹ کا خیال ہے گوربچن سنگھ لائسنس جاری کرانے والے طاقت ور شخص کا فرنٹ مین ہے اور وہ کون ہے؟ یہ قوم کو نیب بتائے گا‘ یونی کارن پریسٹیج نے لائسنس کے لیے یہ دعویٰ بھی کیا تھا یہ ہوٹل انٹرنیشنل چین ہے اورکمپنی برطانیہ سے تعلق رکھتی ہے جب کہ کمپنی کے تمام مالکان منڈی بہائوالدین سے تعلق رکھتے ہیں اور ہوٹل انٹرنیشنل چین کے بجائے سوئس انٹرنیشنل کی فرنچائز ہے اور سوئس انٹرنیشنل بھی زیادہ پرانی کمپنی نہیں۔یہ 30 سال قبل بنی تھی اور یہ ہوٹل کی ٹاپ100 چینز میں بھی شمار نہیں ہوتی لہٰذا یہ ہوٹل غیر ملکی ہے‘ نہ ہوٹل چلانے والی کمپنی اور نہ اس کے مالکان‘ دوسرا اس ہوٹل میں ٹھہرنے والے ننانوے فیصد لوگ پاکستانی اور مسلمان ہوتے ہیں چناں چہ سوال یہ ہےیہ لائسنس پھر کیوں جاری کیا گیا اور عثمان بزدار جیسے وسیم اکرم پلس مدینہ کی ریاست میں اس کے لیے کریز سے باہر کیوں نکلتے رہے؟ اس سوال کے دو جواب ہیں‘ نیب کی اطلاعات کے مطابق یہ لائسنس پانچ کروڑ روپے یا سات کروڑ روپے ادا کر کے لیا گیا تھا‘ یہ رقم کس نے‘ کس کو کہاں اور کس وقت دی یہ بھی معلوم ہو چکا ہے‘ڈی جی ایکسائز اکرم اشرف اس کیس میں وعدہ معاف گواہ بننے کے لیے تیار ہیں‘ یہ نیب کو ان تمام لوگوں کے نام بھی بتانے کے لیے رضا مند ہیں جنھوں نے لائسنس کے لیے ان پر دبائو ڈالا تھا۔ یہ صاف کہہ رہے ہیں ’’مجھے جب چیف منسٹر خود بلا کر کہے گا تو میں کیسے انکار کر سکتا ہوں‘‘دوسرا یہ کام کسی پارٹنر نے کرایا اور گوربچن سنگھ جیسا نامعلوم شخص اس کا فرنٹ مین ہے چناں چہ میرا خیال ہے یہ کیس عثمان بزدار کو لے کر بیٹھ جائے گا‘ یہ ایشو اگر کھل گیا تو وزیراعلیٰ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے اور اگر نیب یہ فائل بند کر دیتا ہے تو ثابت ہو جائے گا نیب حکومت کی فائلیں جان بوجھ کر نہیں کھولتا لہٰذا خطرہ دونوں طرف موجود ہے‘ اس ایشو میں وزیراعلیٰ پنجاب یا نیب کا ادارہ ،دونوں میں سے کسی ایک کو نقصان ہوگا۔(ش 

No comments: