پاکستان سے سب کچھ لے کر پاکستان کو برا بھلا کہنے والے : چمکتے لانگ بوٹ کے عنوان سے نظم پوسٹ کرنے والا اپنے انجام کو پہنچ گیا - Pakistan Point

Breaking

Post Top Ad

August 07, 2020

پاکستان سے سب کچھ لے کر پاکستان کو برا بھلا کہنے والے : چمکتے لانگ بوٹ کے عنوان سے نظم پوسٹ کرنے والا اپنے انجام کو پہنچ گیا

لاہور (ویب ڈیسک) تقریباً ایک سال قبل 27 مئی کو جب شہریوں کے کوائف کے اندارج کے قومی ادارے نادرا کے ایک افسر رضا خان سواتی نے آزاد رکن قومی اسملبی علی وزیر اور ان کے دیگر ساتھیوں کی رہائی سے متعلق اپنے فیس بُک اکاؤنٹ سے ایک پوسٹ شیئر کی

نامور صحافی اعظم خان بی بی سی کے لیے اپنی ایک رپورٹ میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔تو شاید اُس وقت انھیں بالکل اندازہ نہیں تھا کہ اس کی انھیں کتنی بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی۔انھوں نے ناصرف علی وزیر کے حوالے سے شائع شدہ خبر شیئر کی بلکہ کمنٹس کے سکیشن میں سندھ کی مزاحمتی سیاست کے ایک بڑے نام رسول بخش پلیجو کی ایک نظم کا اُردو ترجمہ بھی پوسٹ کر دیا۔ سواتی کی پوسٹ کے مطابق اس نظم کا اُردو ترجمہ مشتاق علی شان نے کیا ہے اور کا عنوان ہے ’چمکتے لانگ بوٹ۔‘ رضا خان نے اپنی پوسٹ کے ساتھ ایک ’فوجی بوٹ‘ کی تصویر بھی شیئر کی۔سندھ کے شہر جامشورو میں نادرا میں سپریٹنڈنٹ کے فرائض انجام دینے والے رضا خان نادرا ورکرز یونین کے عہدے دار بھی تھے اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر اپنے اکاؤنٹس کے ذریعے مزدوروں کے حقوق کی بات بھی کرتے ہیں جبکہ وہ نادرا انتظامیہ کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں سروس کے معاملات پر ہونے والے ایک کیس میں فریق بھی ہیں۔پاکستان میں سرکاری ملازمین کے حوالے سے روایتی میڈیا اور سوشل میڈیا استعمال کرنے کے حوالے سے موجود قواعد و ضوابط کیا ہیں اِن پر آگے چل کر بات ہو گی، پہلے پڑھیے کہ رضا خان کے ساتھ پھر کیا ہوا۔یہ پوسٹس شیئر کرنے کے چند روز بعد یعنی چھ اگست 2019 کو نادرا انتظامیہ کی جانب سے ان پر عائد کردہ الزامات کی ایک فہرست جاری کی گئی۔ انھیں آگاہ کیا گیا کہ سرکاری ملازم ہونے کے ناطے وہ ’غیرقانونی سرگرمی‘ یعنی ’سوشل میڈیا پر

عوام کو پاکستانی فوج کے خلاف بھڑکانے‘ میں مبینہ طور پر ملوث ہوئے ہیں۔رضا خان نے ان تمام الزامات کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔انھیں بتایا گیا کہ وہ ایک ’قومی ادارے‘ کے خلاف مبینہ طور پر ’نامناسب اور غیرقانونی مواد سوشل میڈیا پر شیئر کرنے کے مرتکب ہوئے ہیں۔‘ انھیں یہ بھی بتایا گیا کہ ان کا یہ عمل گورنمنٹ سرونٹس رولز کے تحت ’مس کنڈکٹ‘ کے زمرے میں آتا ہے۔اس کے بعد نادرا انتظامیہ کی جانب سے اسی روز جاری ہونے والی چارج شیٹ میں اگرچہ ’پاکستانی فوج کے خلاف بھڑکانے‘ جیسے الزام کا ذکر تو نہیں تاہم سوشل میڈیا پر ’قابلِ اعتراض مواد‘ شیئر کرنے اور سیاسی نوعیت کے ٹرینڈ میں شمولیت اختیار کرنے کے الزامات برقرار رہے۔اسی روز اس معاملے کی تحقیق کے لیے نادرا انتظامیہ کی جانب سے ایک تین رکنی انکوائری کمیٹی کی تشکیل کا اعلان بھی کیا گیا۔انکوائری چلتی رہی اور 19 نومبر 2019 کو رضا خان کو شوکاز نوٹس جاری کر دیا گیا جس میں کہا گیا کہ ’پس یہ ثابت ہو گیا کہ آپ (رضا) سوشل میڈیا کے ذریعے عوام کو فوج کے خلاف بھڑکانے میں ملوث پائے گئے ہیں۔۔۔‘ شوکاز میں بتایا گیا کہ رضا خان کا یہ عمل گورنمنٹ سرونٹس کنڈکٹ رولز 1964 کی خلاف ورزی ہے۔ شوکاز میں کہا گیا کہ اس مس کنڈکٹ کا ارتکارب کرنے پر ’کیوں نہ آپ کو نوکری سے برخاست کر دیا جائے؟‘ساتھ ہی ملزم افسر کو سات دن کے اندر اندر اپنی آخری صفائی پیش کرنے کا کہا گیا۔رضا خان کی جانب سے نادرا میں جمع کروائے جانے والے

جواب میں ان تمام الزامات کی ناصرف سختی سے تردید کی گئی ہے بلکہ انھوں نے کہا ہے کہ وہ ایک محب وطن شہری ہیں جو ایسا کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔انھوں نے کہا کہ درحقیقت جو بوٹ انھوں نے سوشل میڈیا پر شیئر کیا تھا وہ انڈین فوج کا تھا اور اس کے ذریعے وہ یہ بتانا چاہ رہے تھے کہ کیسے انڈین فوج کشمیر سے مسلمانوں کو بے دخل کرنے کے حربے استعمال کر رہی ہے۔رسول بخش پلیجو کی نظم سے متعلق ان کا موقف تھا کہ یہ نظم سوشل میڈیا پر پہلے سے موجود ہے اور اس پر ابھی تک کسی بھی اتھارٹی نے کوئی پابندی عائد نہیں کر رکھی ہے۔رضا خان نے لکھا کہ وہ ملک کے ایک وفا شعار شہری ہیں اور وہ ہر سال 23 مارچ، 14 اگست اور چھ ستمبر خوب جوش و جذبے کے ساتھ مناتے ہیں اور اس حوالے سے سوشل میڈیا پر تصاویر اور مواد بھی شیئر کرتے ہیں۔انھوں نے کہا ان خصوصی ایام پر ان کی جانب سے شیئر کی جانے والی تصاویر اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ غدار نہیں ہیں۔ان کے مطابق اتنے واضح ثبوت کے باوجود نادرا انتظامیہ کے کچھ عناصر انھیں ادارے سے بے دخل کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔رضا خان کی جانب سے فراہم کردہ جواب سے انتظامیہ مطمئن نہ ہوئی اور 15 جولائی 2020 کو انھیں نوکری سے فراغت کا لیٹر موصول ہو گیا۔اس لیٹر میں لکھا تھا کہ ان کے خلاف تمام الزامات ثابت ہو گئے ہیں اور سنہ 1973 کے گورنمنٹ سروس رولز کے تحت نوکری سے ڈس مِس کیا جاتا ہے۔نادرا کا کہنا ہے کہ کوئی بھی سرکاری ملازم قومی اداروں کی بدنامی کا باعث بننے والا مواد میڈیا کے کسی بھی پلیٹ فارم پر شیئر نہیں کر سکتا۔ایک سال کی انکوائری کے بعد نادرا نے رضا خان کو تو برطرف کر دیا مگر یہ سوال اب بھی جواب طلب ہے کہ آخر سرکاری ملازمین کے لیے میڈیا اور سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اظہار رائے سے متعلق کس حد ممانعت ہے اور رضا خان نے کس طرح ان حدود کی خلاف ورزی کی؟وفاقی حکومت نے گذشتہ ماہ 23 جولائی کو سرکاری ملازمین کے میڈیا اور سوشل میڈیا کے استعمال سے متعلق ضابطہ اخلاق جاری کیا ہے۔(بشکریہ : بی بی سی ) 

 

No comments: