حاملہ ماں کی خوراک کے اثرات نسلوں تک منتقل ہوتے ہیں: تحقیق - Pakistan Point

Breaking

Post Top Ad

April 05, 2021

حاملہ ماں کی خوراک کے اثرات نسلوں تک منتقل ہوتے ہیں: تحقیق

حاملہ ماں کی خوراک کے اثرات نسلوں تک منتقل ہوتے ہیں: تحقیق


دوران حمل اگر ایک ماں کم خوراک کھاتی ہے یا متوازن غذا نہیں لیتی تو اس کا نتیجہ اولاد کے لیے ذیابیطس اور موٹاپے کے خطرے کی صورت میں ظاہر ہوسکتا ہے۔
لندن —

ایک نئی تحقیق سے وابستہ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دوران حمل ماؤں میں غذائیت کی کمی سے نہ صرف ان کےبچےکی صحت متاثر ہو سکتی ہے بلکہ اگلی نسل یعنی پوتے پوتیوں کی صحت کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے۔

‘جرنل سائنس’ میں شائع ہونے والی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ دوران حمل اگر ایک ماں کم خوراک کھاتی ہے یا متوازن غذا نہیں لیتی تو اس کا نتیجہ اولاد کے لیے ذیا بیطس اورموٹاپے کےخطرہ کی صورت میں ظاہرہو سکتا ہے۔

تحقیق میں بتایا گیا ہےکہ ایک حاملہ ماں کی غذائی عادات کی یادداشت آنے والی نسلوں میں منتقل ہوسکتی ہے۔

اگرایک حاملہ عورت دوران حمل ضرورت کےمطابق خوراک نہیں کھاتی ہے تو ممکن ہےکہ پیدا ہونےوالابچہ نہ صرف غذائیت کی کمی کے ساتھ پیدا ہو بلکہ اس کا جسم دنیا میں آنے سے پہلے ہی غذائی قلت کا مقابلہ کرنے کے لیے بھی تیار ہو۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ ،بچہ بڑا ہونے پراگرجسم کی ضرورت کے مطابق خوراک حاصل کرتا ہے تواس کا جسم اسے زیادہ خوراک تصور کر لیتا اور اس کا کمزور نظام انہضام خوراک ہضم کرنےکےقابل نہیں ہوتا ہےجس کےنتیجے میں خوراک پورے طور پر ہضم نہیں ہو سکتی ہے۔

جسم بجائے پورا کھانا ہضم کرنےکے اسے چربی کی صورت میں ذخیرہ کرنا شروع کر دیتا ہےجس سے بچے کا میٹا بولک بیماریاں میں مبتلا ہونےکے امکان میں اضافہ ہوتا ہے۔ خاص طور پرذیا بیطس ٹائپ ٹو بیماری کا خطرہ اس کے لیے شدید ہو جاتا ہے۔

محققین کا کہنا ہے کہ حمل کے دوران غذائیت کی کمی نوزائیدہ بچےکی جین میں تبدیلیوں کا سبب بن سکتی ہے اور اس طرح کی تولیدی تبدیلیاں نہ صرف بچے بلکہ آنے والی نسل تک میں منتقل ہوسکتی ہے۔

چوہوں پر کی جانے والی اس تحقیق میں محققین نے پتا لگایا ہے کہ ایسا نہیں ہےکہ غذائیت کی کمی کے اثرات غیر معینہ مدت تک کےلیے ہوسکتےہیں بلکہ تحقیق کے مطابق ان تبدیلیوں کا اثرتین نسلوں میں منتقل ہوسکتا ہے ۔

کیمبرج یونیورسٹی اور ہارورڈ یونیورسٹی سے وابستہ محققین کی ٹیم کا کہنا ہے کہ یہ نتائج اس بات کی وضاحت کرنے میں مددگار ثابت ہوں گے کہ کیوں ذیا بیطس ٹائپ ٹو ایک بہت بڑا عالمی مسئلہ بن چکا ہے ۔

کیمبرج یونیورسٹی کے جنیا ت کے شعبہ سے منسلک پروفیسر این فرگوسن اسمتھ کے بقول دوران حمل غذائی قلت کا شکار بچے پیدائش سے قبل ہی غذائی کمی کا مقابلہ کرنے کے لیے خود کو تیارکرچکے ہوتے ہیں لیکن بعد میں بچے کے لیے خوراک کی زیادتی میٹا بولک بیماریوں یا ذیا بیطس ٹائپ ٹوکا خطرہ پیدا کرتی ہے۔

محققین نے تجربے کے دوران دیکھا کہ غذائیت کی کمی کا شکارچوہیا کےبچوں میں پیدائش کے بعد نارمل خوراک کھانے کی وجہ سے بھی ذیا بیطس کا خطرہ پیدا ہوا جبکہ دوسری نسل کےچوہے بھی بہت کم وزن اور سائزکے پیدا ہوئےاگرچہ اس نسل میں حاملہ ماں غذائیت کی کمی کا شکار نہیں تھی۔

تاہم محققین نے تیسری نسل کے چوہوں کے ڈی این اے میں دیکھا کہ غذائیت کی کمی کی وجہ سے پیدا ہونے والی غیر متوقع تبدیلیاں پورے طور پرغائب ہو چکی تھیں یعنی اب یہ آنے والی نسل میں منتقل نہیں ہو سکتی تھیں۔

No comments: